آعظمگڈھ ضمنی الیکشن، سپا،بسپا اور بھاجپا کے درمیان سہ رخی مقابلہ۔

Youth India Times
By -
0


سپا کے لئے اپنی شاخ بچانے تو بسپا کے لئے کھویا ہوا وقار حاصل کرنے کی جہدوجہد ۔


آعظم گڈھ (محمد اسلم)
اعظمگڈھ پارلیمانی حلقہ کے ایم۔ پی۔ اور سماج وادی پارٹی کے قومی صدر اکھلیش یادو کے ذریعہ ایم پی عہدے سے مستعفی ہوجانے کی وجہ سے خالی پڑی اس سیٹ کے لئے 23 جون کو الیکشن کا اعلان کردیئے جانے کے بعد سے ضلع کا سیاسی پارہ نقطہ عروج پر ہے۔ اس الیکشن میں سماج وادی پارٹی نے بدایوں کے سابق ایم پی دھرمندر یادو کو میدان میں اتارا ہے تو بہوجن سماج پارٹی کی جانب سے مبارک پور سے دوبار ممبر اسمبلی رہے شاہ عالم گڈو جمالی اور بھاجپا کے ذریعہ بھوجپوری فلم اسٹار دنیش لال نرہوا کوایک بار پھر ٹکٹ دیکر اس ضمنی انتخابات میں اپنی کامیابی کی دعویداری پیشے کردی ہے، جبکہ کانگریس کی جانب سے نہ تو کوئی امیدوار میدان میں لایا گیا ہے اور نہ ہی کسی پارٹی کی حمایت کا اعلان کیا گیا ہے، پھر بھی مذکورہ بالا امیدواروں کے علاوہ آزاد و دیگر چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کے کل 13 امیدوار میدان میں ہیں۔ ماہرین کی مانیں تو اس ضمنی الیکشن میں سپا،بسپا اور بھاجپا کے امیدواروں کے درمیان سہ رخی مقابلہ ہونا طے ہے۔ گزشتہ پارلیمانی الیکشن 2019 کی بات کریں تو اس وقت سپا بسپا اور آر ایل ڈی کے درمیان اتحاد ہونے کی وجہ سے ضلع کے دو پارلیمانی حلقوں لال گنج محفوظ سے بہوجن سماج پارٹی کی سنگیتا آزاد اور آعظم گڈھ پارلیمانی حلقے سے سپا کے قومی صدر اکھلیش یادو کے کامیاب ہوئے تھے۔ ان دونوں حلقوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدواروں نے کڑی ٹکر دی تھی لیکن اس ضمنی الیکشن کے موقع پر بہوجن سماج پارٹی کے اتحاد سے الگ ہونے کے سبب مقابلہ سہ رخی اور کافی دلچسپ ہونے کی قوی امید ہے۔ اگر اعظم گڈھ کے سیاسی پش منظر کی بات کریں تو اسکی زمین ہمیشہ سیکولر سیاسی جماعتوں کے لیے کافی زر خیز رہی ہے اس ضلع کی عوام نے شدت پسند سیاسی جماعتوں چاہے ان کا تعلق کسی بھی طبقے سے رہا ہو کبھی پسند نہیں کیا۔ گزشتہ1996 سے اب تک اس پارلیمانی سیٹ پر چار بار سپا دوبار بسپا اور ایک بار 2009 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا قبضہ رہا ہے بھاجپا کو یہ کامیابی ضلع کے شہزور اور قدآور سیاسی لیڈر رماکانت یادو نے دلائ تھی جن کا اپنا ایک مضبوط سیاسی حلقہ ہے وہ چاہے جس بھی پارٹی سے ہوں انہیں یادو مسلم کے ساتھ دیگر برادریوں کے لوگ وو ٹنگ کرتے ہیں۔ اپنے اسی دم خم کی وجہ سے وہ دو بار سپا ایک بار بسپا اور ایک بار بھاجپا کے ٹکٹ سے ایم پی رہے ہیں۔ اس وقت وہ سماج وادی پارٹی کے ساتھ ہیں لیکن 2004 کے ضمنی الیکشن سے پہلے انہوں نے بھاجپا کا دامن تھام لیا تو بھاجپا نے انہیں اپنا امیدوار بنایا تھا لیکن اس ضمنی الیکشن کے دوران بہوجن سماج پارٹی کے اکبر احمد ڈمپٹی سے ہار جانے کے بعد 2009 میں جب انہوں نے بھاجپا کے بینر تلے جیت حاصل کی تو اس وقت سماجوادی پارٹی کے قومی صدر سابق وزیراعلی ملائم سنگھ یادو کو بڑا جھٹکا لگا کہ جس آعظمگڈھ کو اپنے دل کی دھڑکن سے تعبیر کرتے چلے آئے ہیں وہ رماکانت یادوکے سہارے بھاجپا کا گڑھ نہ بن جائے۔ شاید یہی وجہ تھی کی 2014کے پارلیمانی الیکشن کے دوران انہوں نے خود اعظم گڑھ سے لڑنے کا فیصلہ لیا اور کامیاب رہے انہیں کل تین لاکھ 40 ہزار 306 ووٹ اور بھاجپا کے رماکانت یادو کو دو لاکھ 72 ہزار 102 ووٹ اور بہوجن سماج پارٹی کے شاہ عالم گڈو جمالی کو دو لاکھ 66 ہزار 528 ووٹ ملے تھے۔ بعد ازاں 2019 کے پارلیمانی الیکشن میں اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے سپا کے قومی صدر اکھلیش یادو کامیاب ہوئے اور سپا بسپا اور آر ایل ڈی کے امیدوار کی حیثیت سے انہوں نے 6لاکھ 21 ہزار 578 ووٹ اور بھوجپوری فلم اسٹار دنیش لال نرہوا کو تین لاکھ 61 ہزار704 ووٹ ملے تھے۔ لیکن ممبر پارلیمنٹ کی مدت کار ختم ہونے سے پہلے ہی اکھلیش یادو کے مستعفی ہونے کے بعد 23 جون کو کرایا جانے والا یہ ضمنی الیکشن سماجوادی پارٹی کے لیے وقار کا مسئلہ بن گیا ہے۔ موجودہ حالت میں آعظم گڈھ صدر پارلیمانی حلقہ کے پانچوں اسمبلی حلقوں اعظم گڑھ، مبارکپور، گوپالپور، سگڑی اور میہنگر پر سماجوادی پارٹی کا قبضہ ہے جس کی وجہ سے سپالیڈر ان کے حوصلے بلند ہیں لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ اسمبلی الیکشن کے نتائج پارلیمانی الیکشن پر نظر انداز نہیں ہوتے دونوں مختلف نوعیت کے الیکشن ہونے کے ناطے اکثر عوام اپنے فیصلے بدل لیتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ سپا کے قومی صدر نے کافی غوروخوض کے بعد آخر میں اپنے چچا زاد بھائی بدایوں کے سابق ایم پی دھر مندریادو کو اپنا امیدوار بنایا ہے ان کا دعوی ہے کہ اعظم گڑھ کی ترقی میں سماج وادی پارٹی کا نمایاں کردار رہا ہے اس لئے دھرمندر یادوں کو کامیابی ملے گی۔ دوسری طرف بہوجن سماج پارٹی کی طرف سے اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرنے کی غرض سے مبارک سے دوبار ایم ایل اے منتخب ہونے والے شاہ عالم گڈو جمالی کو امیدوار بنایا گیا ہے۔ گڈو جمالی کی سیاسی مقبولیت خصوصی طور پر عوامی خدمات کے مدنظر انکی کامیابی کا دعوی کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ برسراقتدار بھاجپا کے امیدوار دنیش لال نر ہوا کو اپنی حکومت کی عوامی خدمات اور ان کی اپنی مقبولیت کی بدولت نیا پار لگنے کی امید ہے۔ ایسے میں اعظمگڈھ صدر پارلیمانی حلقہ کے پانچوں اسمبلی حلقوں اعظم گڑھ، مبارکپور، گوپالپور، سگڑی اور میہنگر سے کامیاب ہونے والے سپا ایم ایل اے کو ملنے والے ووٹوں کی بات کی جائے تو انہیں کل چار لاکھ 35 ہزار 973 ووٹ ملے تھے۔ دوسرے نمبر پر رہنے والے بھاجپا امیدواروں کو کل 3لاکھ 29 ہزار 856 ووٹ اور تیسرے نمبر پر رہنے والے بہوجن سماج پارٹی کے امیدواروں کو کل 2لاکھ 24 ہزار 405 ووٹ ملے تھے۔ لیکن اس ضمنی الیکشن میں ان اعداد و شمار پر طائرانہ نظر ڈال کر سماجوادی پارٹی کے امیدوارکو کامیاب قرار دینا ایک بڑی غلطی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو موجودہ پارلیمانی الیکشن کے دوران امیدواروں کی دلوں کی دھڑکنیں نہ بڑھتیں۔ اسمبلی الیکشن سے پارلیمانی الیکشن کی نوعیت الگ ہونے کی وجہ سے کسی ایک کی کامیابی پر وثوق سے کہنا قبل از وقت ہوگا۔ سیاسی ماہرین کی مانیں تو سپا کے دھرمندر یادو بسپاکے شاہ عالم گڈو جمالی اور بھاجپا کے دنیش لال نر ہوا کے درمیان سخت مقابلہ ہوگا جس کی وجہ سے ہار جیت کا فاصلہ بھی کافی کم ہونے کی قوی امید ہے۔ لہذا دیکھنا یہ ہے کہ جس اعظم گڑھ صدر پارلیمانی سیٹ پر ملائم سنگھ یادو اور اکھلیش یادو نے خود الیکشن لڑ کر بھاجپا کا گڑھ ہونے سے بچایا تھا سیفئی پریوار کے ہی دھرمندر یادو اسے برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں یہ وقت بتائے گا۔

Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)